دیکھ کر چنئے گا ، گل ہائے مراد
تاک میں ہوتے ہیں ، اکثر خار بھی
عدم
گل ہائے زندگی تو کھلے ، اور بکھر گئے
کانٹے جو زیرِ سایۂ گل تھے ، ابھر گئے
نامعلوم
جس دن سے تری ذات ، سے منسوب ہوا ہوں
کانٹا سا کھٹکتا ہوں ، زمانے کی نظر میں
شفق طاہری
گلوں سے داغ ، کانٹوں سے خلش ، لینے کو آئے ہیں
گلستاں میں ہم اپنے دل کو ، بہلانے نہیں آئے
حفیظ میرٹھی
پیچھے بندھے ہیں ہاتھ ، مگر شرط ہے سفر
کس سے کہیں کہ پاؤں کے ، کانٹیں نکال دے
تاج بھوپالی
یارو دل کیا اجڑ گیا میرا
ایک بستی اجڑ گئی میری
اشوک ساہنی