مختصر سی ہے یہ ، گل کی داستاں
شاخ پر پھوٹا ، کھلا ، مرجھا گیا
امر چند قیص
سحر ہوتے ہی جن پھولوں سے ، لوٹی تازگی تم نے
کبھی ان کی اداسی دیکھنے بھی ، وقتِ شام آؤ
سیماب اکبرآبادی
پھولوں کو تو سر خوب ، چڑھاتا ہے زمانہ
ہے کوئی جو کانٹوں کو بھی ، سینہ سے لگائے
حفیظ میرٹھی
آیا بسنت پھول بھی ، شعلوں میں ڈھل گئے
میں چومنے لگا تو مرے ، ہونٹ جل گئے
کمار پاشی
رفیقوں سے رقیب اچھے ، جو جل کر نام لیتے ہیں
گلوں سے خار بہتر ہیں ، جو دامن تھام لیتے ہیں
نامعلوم
پھر رخ بدل رہی ہیں ، گلزار کی ہوائیں
پھولوں سے کوئی کہہ دے ، اتنا نہ مسکرائیں
آفتاب جوہر
خزاں نے پھولوں سے چن چن کے ، انتقام لیا
خطا یہ ہے کہ ، بہاروں میں مسکرائے تھے
آفتاب جوہر
نازکی تو مرے محبوب کی دیکھے کوئی
گل کو چھوتے ہی پڑے ، ہاتھ میں چھالے ان کے
اشوک ساہنی