شبنم کی ایک بوند تھی ، پھولوں کی کائنات
وہ بھی نہ بچ سکی ، ہوسِ آفتاب سے
عدم
لگتا ہے کہ صیاد نے ، فطرت ہی بدل دی
ہر پھول مجھے خار کی ، صورت میں ملا ہے
راشد حامدی
پھولوں کے ساتھ ساتھ ہیں ، حقدار خار بھی
تنہا گلوں کا ہی نہیں ، موسم بہار کا
نامعلوم
گلوں سے خون ٹپکتا ہے ، خار ہیں شاداب
بنامِ فصلِ بہاراں ، خزاں بہار میں ہے
راشد حامدی
وہ گل ہوں ، خزاں نے ، جسے برباد کیا ہے
الجھوں کسی دامن سے ، میں وہ خار نہیں ہوں
اکبر حیدرآبادی
پاؤں کا کانٹا ، وہی اب بن گئے
ہم نے جن پودوں کو ، سینچا خون سے
دھرمیندر سرمست
نفرت کی لو چلی تو ، چمن بھی جھلس گیا
بدلے کی بھاؤنا سے ، وطن بھی جھلس گیا
اشوک ساہنی