غمِ عمرِ مختصر سے ابھی ، بےخبر ہیں کلیاں
نہ چمن میں پھینک دینا ، کسی پھول کو مسل کر
شکیل بدایونی
ذرا کوئی دیکھے یہ! غنچوں کا عالم
کہ کھلنے سے پہلے ہی مرجھا رہے ہیں
فیاض
کبھی کانٹوں نے بھی ، تھاما ہے دامن
کبھی پھولوں نے بھی ، دامن بچائے
دھرمپال عاقل
میں نے پھولوں کو چھوا ، مرجھا کے کانٹے ہو گئے
تو نے کانٹوں پر قدم رکھا ، گلستاں کر دیا
وشواناتھ درد
ذرا اک تبسم کی ، تکلیف کرنا
کہ گلزار میں ، پھول مرجھا رہے ہیں
عدم
چل پھر کے تم نے رنگ ، چمن کا بڑھا دیا
غنچوں کو پھول ، پھول کو ، گلشن بنا دیا
نامعلوم
خزاں کی رت میں وہ ، کیا مسکرائیں گے یارو
جو غنچے موسمِ گل میں بھی ، مسکرا نہ سکے
نامعلوم
غم و خوشی میں ہمیشہ ، خدا جو یاد رہے
تو گھر کے کانٹوں میں بھی انسان دل سے شاد رہے
اشوک ساہنی