یہ صحبتیں بھی دیکھئے ، لاتی ہیں رنگ کیا
مہمانِ خار ، پاؤں کے چھالے ہوئے تو ہیں
فانی بدایونی
خزاں جو آئی تو ، سمجھا بہار کی آمد
مری نگاہ سے ، پھولوں کی تازگی نہ گئی
عرش ملسیانی
گلشن پرست ہوں مجھے ، گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ ، کئے جا رہا ہوں میں
جگر مرادآبادی
اشکوں سے تر ہے پھول کی ، ہر ایک پنکھڑی
رویا ہے کوئی تھام کے ، دامن بہار کا
ساحر لدھیانوی
چھپنا پڑا گلوں کو بھی ، دامانِ خار میں
کچھ ایسے حادثے بھی ، ہوئے ہیں بہار میں
نامعلوم
ہنسو کسی پہ تو ، دونوں جہاں سے ڈر کے ہنسو
گلوں کے لب پہ بھی ، دیکھی تھی کل ہنسی میں نے
نامعلوم
خوں ٹپکتا ہے لالہ و گل سے
اس سے بہتر خزاں کا موسم تھا
اشوک ساہنی