دوست دشمن

نام کے اپنوں نے دیں وہ تلخیاں

عمر بھر اپنوں سے بھی ڈرتے رہے

سیفی

مسرتوں میں برابر شریک تھے احباب

مگر نہ غم میں کوئی بن کے غمگسار آیا

بیتاب

رات آتی ہے تو ہو جاتا ہے سایہ بھی جدا

آج اپنا بھی پرایا ہے کوئی بات نہیں

شعلہ

دل لاکھ سخت جاں ہو مگر ٹوٹ جائے گا

یارانِ پرخلوص کی امداد چاہئے

نریش کمار شاد

وہ وقت کا جہاز تھا کرتا لحاظ کیا

میں دوستوں سے ہاتھ ملانے میں رہ گیا

حفیظ میرٹھی

کیا تعجب ہے کہ یاروں نے رفاقت چھوڑی

بیٹھتا کون ہے گرتی ہوئی دیوار کے پاس

رضا

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

حفیظ میرٹھی

ایک مدت میں حقیقت یہ کھلی

دوستی کی انتہا ہے دشمنی

اشوک ساہنی