دوست دشمن

دوست ہوتا وہ ، تو کیا ہوتا

دشمنی پر تو ، پیار آتا ہے

میر

جب بھی غیروں کی ، عنایت دیکھی

ہم کو اپنوں کے ، ستم یاد آئے

نامعلوم

دوستوں سے اس قدر صدمے ہوئے ہیں ، جان پر

دل سے دشمن کی عداوت کا ، گلہ جاتا رہا

آتش

واسطہ جب پڑا ہے اپنوں سے

غیر کیا کیا نہ ، یاد آئے ہیں

خمار

دشمن تک کو ، بھول گئے ہو

مجھ کو تم کیا ، یاد کرو گے

تاثیر

کون روتا ہے ، کسی اور کی خاطر اے دوست!

سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا

فراق

کیا بزمِ داستاں تھی ، ابھی کل کی بات ہے

معلوم ہو رہا ہے کہ ، صدیاں گزر گئیں

فراق

غم سے ناطہ توڑ کر اے دل! سدا پچھتائے گا

غم رفیقِ زندگی ہے ساتھ تیرے جائے گا

اشوک ساہنی