اشک-آنسو

جن سے دیکھی نہیں جاتی ، مری خستہ حالی

وہی آنسو مری آنکھوں سے ، چھلک جاتے ہیں

نامعلوم

آنسوؤں سے کیا بجھے گی ، دوستو! دل کی لگی

اور بھی پانی کے چھینٹوں سے ، بھڑک جاتی ہے آگ

حفیظ میرٹھی

آتی تھی قہقہوں کی صدا ، دور سے حفیظؔ

دیکھا قریب جاکے تو ، آنسو رواں ملے

حفیظ میرٹھی

تھم گئے آنسو جب اس نے ، رکھ دیا آنکھوں پہ ہاتھ

راستے ہی بند ہو جائیں ، تو دریا کیا کرے

حفیظ میرٹھی

روک رکھا ہے بہ مشکل ، جنہیں پلکوں پر ہی

اپنے اشکوں کی وہ سوغات ، کسے پیش کروں

نامعلوم

جنت تو کیا ہے ہم نے ، خدا کو بھی پا لیا

مفلس کے اشک پونچھ کے ، سب کچھ کما لیا

اعجاز انصاری

جانے سے ذرا پہلے ، اشکوں کو تو رکنے دو

اتنا تو ٹھہر جاؤ ، طوفاں تو گزر جائے

نامعلوم

غم تو غم ہے ، خوشی میں بھر آئے

مجھ کو اشکوں پہ ، اعتبار نہیں

اشوک ساہنی