اشک-آنسو

آنکھوں میں تری آنسو ، بھر آئے مرے غم پر

اب مجھ کو یقیں آیا ، پتھر بھی پگھلتے ہیں

شایر جمالی

نکل آتے ہیں اے دل ، اپنے آنسو

کبھی جب مسکرانا ، چاہتا ہوں

دل لکھنوی

ڈوب جاتے ہیں امیدوں کے ، سفینے اس میں

میں نہ مانوں گا کہ آنسو ہے ، ذرا سا پانی

جوش ملسیانی

گرم آہوں کو تو روکوں گا ، مگر خوف ہے یہ

گرم اشکوں سے نہ جل جائے ، نشیمن میرا

جوش ملسیانی

اشکوں سے سلگتی ہوئی ، امید کو دیکھو

پانی سے اگر گھر کوئی ، جلتے نہیں دیکھا

عرش ملسیانی

یہ رکے رکے سے آنسو ، یہ گھٹی گھٹی سی آہیں

یوں ہی کب تلک خدایا! غمِ زندگی نباہیں

بسمل سعیدی

جب سوچتا ہوں ، تجھ کو ، ترے غم کو بھلا دوں

ہو جاتے ہیں آنکھوں سے مری ، اشک رواں اور

ہیرا لال فلک

ہے مرے لب پہ تبسم رقصاں

یہ الگ بات کہ دل روتا ہے

اشوک ساہنی