آنسو پئے تو دل کا چمن ، اور جل اٹھا
شبنم سے پھول اور بھی ، مرجھا کے رہ گئے
صبا افغانی
دلِ مایوس! ترا ، ہر آنسو
ایک خاموش ، گلہ ہوتا ہے
رتن پٹنوی
دل سلگتا ہے ، اشک بہتے ہیں
آگ بجھتی نہیں ہے ، پانی سے
گلزار دہلوی
مرے آنسو ہیں یہ ، دامن کہیں تیرا نہ جل جائے
کہ ہر آنسو ہمیشہ ، قطرۂ شبنم نہیں ہوتا
جگن ناتھ آزاد
مری آنکھوں میں آنسو ، تجھ سے ہم دم کیا کہوں کیا ہے
ٹھہر جائے تو انگارہ ، جو بہہ جائے تو دریا ہے
فانی
آزادؔ کیا کہوں میں ، زمانہ کا رنگ ڈھنگ
میں اس قدر ہنسا ، مرے آنسو نکل پڑے
جگن ناتھ آزاد
اس کی آنکھوں میں نظر آتے ہیں آنسو راشدؔ
لیجئے ٹوٹ گئے آج بھرم پتھر کے
راشد حامدی
اس سے بڑھ کر ، کوئی بھی نشہ نہیں
ضبطِ غم میں ، آنسؤوں کو پی گیا
اشوک ساہنی