اشک-آنسو

کہاں گم ہو گئے ہیں وہ خدا جانے

میں اپنے آنسؤوں کو ڈھونڈھتا ہوں

افسر اعظمی

شک نہ کر میری ، خشک آنکھوں پر

یوں بھی آنسو ، بہائے جاتے ہیں

نامعلوم

جوق در جوق ، اشک آتے تھے

رات آنکھوں میں ، ایک میلہ تھا

ساحرہ بیگم

بہا جاتا ہے تن ، گھل گھل کے ، اشکوں کی روانی میں

گرے کٹ کٹ کے ، دریا کا کنارہ جیسے پانی میں

نامعلوم

جن کو آنسو سمجھ رہے ہو شکیلؔ

دل کے ٹوٹے ہوئے سہارے ہیں

شکیل

تیری تصویر بنائی تو تھی آنکھوں میں

بہہ کے اشکوں نے ، مٹا دی ہوگی

اشوک ساہنی