تری خدائی میں ہوتی ہے ، ہر سحر کی شام
الٰہی! اپنی سحر کی بھی شام ہو جائے
فانی بدایونی
الٰہی! شبِ غم میں ، اتنا تو ہو
کوئی جھوٹ کہہ دے ، سحر ہو گئی
میر
لاکھ آفتاب پاس سے ، ہو کر گزر گئے
ہم بیٹھے انتظارِ سحر ، دیکھتے رہے
جگر
گھبراؤ نہیں زندگی ، بےکیف اگر ہے
آخر شبِ تاریک کا ، انجام سحر ہے
تلوک چند محروم
شبِ غم اک سحر پہ ، تھی موقوف
وہ بھی کم بخت ، ٹل گئی ہوگی
جوش ملسیانی
طولِ غمِ حیات سے ، گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شام ہے ، جس کی سحر نہ ہو
جگر
میں کسی حال میں ، مایوس نہیں ہو سکتا
ظلمتیں لاکھ ہوں ، امیدِ سحر رکھتا ہوں
نعیم غازی
زندگی غم سے سنورتی ہے ، نہ گھبرا اے دوست!
حد سے بڑھ جائے اندھیرا ، تو سحر ہوتی ہے
اشوک ساہنی