اندھیرے-اجالے-روشنی

اس قدر صدمے ، اجالوں سے اٹھائے دن بھر

رات آئی تو ، چراغوں کو بجھا دیتے ہیں

اوشا شفق

مفلس کا اک دیا ہوں ، میرا رنگ و روپ کیا

برسوں جلا جلا کے ، بجھا گیا ہوں میں

طاہر تلہری

جن چراغوں کو جلایا تھا ، اجالوں کے لئے

ان چراغوں کے اجالے نے ، جلایا ہے مجھے

عزیز وارثی

جن کے دم سے اجالے تھے ، چاروں طرف

ان کو لڑنا پڑا ، روشنی کے لئے

بلبیر راٹھی

فرصت ملے تو دن کے ، اندھیرے کی سوچئے

تاریکیاں تو روز ہی ، آئیں گی شب کے ساتھ

شجا خاور

چاند چمکا کیا ، شمع جلتی رہی

ہم ترستے رہے ، روشنی کے لئے

میر

فلک کے تاروں سے کیا ، دور ہوگی ظلمتِ شب

جب اپنے گھر کے چراغوں سے ، روشنی نہ ملی

نامعلوم

چاہے ہر سو ہو مسلّط شبِ ظلمت پھر بھی

ہم کو کرنی ہے اجالوں کی حفاظت پھر بھی

اشوک ساہنی