بےخودی میں اپنی کشتی سے ، کنارہ تھا قریب
ہوش جب آیا تو کوسوں دور تھے ، ساحل سے ہم
سبا
اگر کچھ تھی تو بس یہی تھی ، تمنا آخری اپنی
کہ تم ساحل پہ ہوتے ، اور کشتی ڈوبتی اپنی
جزبی
عجب کیا ہے کہ چکناچور ہو ، ٹکرا کے ساحل سے
مری کشتی جو اب نزدیکِ ساحل ہوتی جاتی ہے
وحشت
اس ناخدا کے ظلم و ستم ، ہائے کیا کروں
کشتی مری ڈبوئی ہے ، ساحل کے آس پاس
حسرت موہانی
ٹکرائی ہے یہ آ کے ، کہاں کشتئ امید
ساحل بھی میرے واسطے ، ساحل نہیں رہا
بیتاب
جب کشتی ثابت و سالم تھی ، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی میں ، ساحل کی تمنا کون کرے
جزبی
ٹکرا کے ناخدا نے ، مری کشتئ حیات
ساحل کو میرے واسطے ، طوفاں بنا دیا
قمر
کتنے طوفان کئے ، عزم نے اپنے غرقاب
ہم سے طوفاں نہیں ، طوفان سے ہم ٹکرائے
اشوک ساہنی