سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاں

ساحل کے سکوں سے ، کسے انکار ہے لیکن

طوفان سے لڑنے میں ، مزہ اور ہی کچھ ہے

نامعلوم

دریا کو اپنی موج کی ، طغیانیوں سے کام

کشتی کسی کی پار ہو ، یا درمیاں رہے

حالی

اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا ، دو چار تھپیڑے ہلکے سے

کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں

جزبی

ان سفینوں کا ، حال کیا کہئے

غرق جن کو کیا ، کناروں نے

منشا

طلاطم کا احسان ، کیوں ہم اٹھائیں

ہمیں ڈوبنے کو ، کنارہ بہت ہے

ساحر بھوپالی

مرے ڈوب جانے کا ، باعث نہ پوچھو

کنارے سے ٹکرا ، گیا تھا سفینہ

حفیظ جالندھری

کنارے ہی سے طوفاں کا ، تماشا دیکھنے والے

کنارے سے کبھی ، اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا

جگن ناتھ آزاد

بھروسہ ناخداؤں پر ، جو کرتے ہیں سمندر میں

بساوقات ان کے ہی ، سفینے ڈوب جاتے ہیں

اشوک ساہنی