مجھے روکےگا تو اے ناخدا ، کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہے ، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
اقبال
کسی کی ناؤ کو ، طوفان نے غرقاب کیا
کسی کی ناؤ کنارے ، اسی بہانے لگی
جمیل مظہری
آج ساحل پر اسی کی ، لاش لاوارث ملی
جس کو کہتے تھے زمانے کا ، بڑا تیراک تھا
بیکل
ساحل کے تماشائی ، ہر ڈوبنے والے پر
افسوس تو کرتے ہیں ، امداد نہیں کرتے
نامعلوم
دریا کی زندگی پر ، صدقے ہزار جانیں
مجھ کو نہیں گوارا ، ساحل کی موت مرنا
نامعلوم
اس موج کی ٹکر سے ، ساحل بھی لرزتا ہے
کچھ روز جو طوفاں کی ، آغوش میں پل آئے
نامعلوم
یوں ہی ڈبوتا رہا ، کشتیاں اگر سیلاب
تو سطحِ آب پہ چلنا ، بھی آ ہی جائے گا
منظور ہاشمی
شکستہ ہی سہی کشتی ، مگر طوفاں سے ٹکر لے
جو ہمت ہار جاتے ہیں ، انہیں ساحل نہیں ملتا
اشوک ساہنی