محبت ہو کسی کی یا عداوت
مزہ دے جائے گی جو ، دل سے ہوگی
نسیم دہلوی
تجھ کو خبر نہیں مگر ، اک سادہ لوح کو
برباد کر دیا ترے ، دو دن کے پیار نے
ساحر لدھیانوی
محبت میں نہیں ہے فرق ، جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں ، جس کافر پہ دم نکلے
مرزا غالب
ہم سے کیا ہو سکا ، محبت میں
خیر تم نے تو ، بےوفائی کی
فراق
جب محبت کا ، نام سنتا ہوں
ہائے کتنا ، ملال ہوتا ہے
جزبی
محبت کے اقرار سے ، شرم کب تک
کبھی سامنا ہو تو مجبور کر دوں
اختر شیرانی
انہیں اعتبارِ الفت جو نہ ہو سکا ابھی تک
میں سمجھ گیا یقیناً ، ابھی مجھ میں کچھ کمی ہے
نامعلوم
دوستوں اور دشمنوں میں ، فرق بس جزبہ کا ہے
دوست جب نفرت کریں گے ، غیر ہی کہلائیں گے
اشوک ساہنی