غم سے بڑھ کر دوست ، کوئی دوسرا ہوتا نہیں
سب جدا ہو جائیں لیکن ، غم جدا ہوتا نہیں
جگر
خدا! پناہ میں رکھے کشاکشِ غم سے
کہ اس سے تارِ نفس جلد ٹوٹ جاتا ہے
نامعلوم
آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ملا ، اسے غمِ جاناں بنا دیا
اصغر گونڈوی
اپنی تباہیوں کا ، مجھے کوئی غم نہیں
تم نے کسے کے ساتھ ، محبت نباہ تو دی
ساحر لدھیانوی
خوشی کا کیا ہے کہ ، کس موڑ پر بچھڑ جائے
رہِ حیات میں ، غم کو بھی ہمسفر رکھنا
سلطان سکون
اتنا غمِ حیات نے مایوس کر دیا
اب تو تمہاری یاد بھی ، آتی نہیں مجھے
اشوک ساہنی