اس قدر انسانیت میں ، زلزلہ آنے لگا
ہر شریف انساں کو اب ، احمق کہا جانے لگا
رتن پٹنوی
قحطِ انساں ہیں ، مگر بھیڑ کا یہ عالم ہے
گھر سے نکلو تو ، گزرنے کا بھی رستہ نہ ملے
شفق طاہری
آباد ہے اس نام سے ہر ذرہ زمیں کا
دنیا مگر انسان سے ویراں ہے ابھی تک
بسمل سعیدی
کعبہ میں مسلماں ہیں ، مندر میں برہمن
انسان تو اے واعظ! مےخانوں میں ملتے ہیں
بلونت سہائے
ایسا جو نئے دور کا انساں ہے تو کیا ہے
تہذیب نہ اخلاق و شرافت ، نہ حیا ہے
ہیرا لال فلک
یہ تو ممکن ہے ، کسی روز خدا بن جائے
غیر ممکن ہے ، مگر شیخ کا انساں ہونا
نریش کمار شاد
کروڑوں سال سے یوں تو ، ہے آدمی کا وجود
نگاہ اب بھی ترستی ہے ، آدمی کے لئے
بیدی سحر
غم و خوشی میں ہمیشہ ، خدا جو یاد رہے
تو گھر کے کانٹوں میں بھی ، انسان دل سے شاد رہے
اشوک ساہنی