اس دور میں ، زندگی بشر کی
بیمار کی ، رات ہو گئی ہے
فراق
چیخیں مری سن کر بھی ، کوئی پاس نہ آیا
اس شہر میں شاید ، کوئی انسان نہیں ہے
راشد حامدی
ہر آدمی میں ، ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو ، کئی بار دیکھنا
ندا فاضلی
میں نے سمجھا تھا ، سارے انساں ہیں
یہ تو ہندو ہیں ، یا مسلماں ہیں
دھرمیندر سرمست
سبھی کچھ ہو رہا ہے ، اس ترقی کے زمانے میں
مگر یہ کیا غضب ہے ، آدمی انساں نہیں ہوتا
خمار
اپنے منصب سے انسان تو گر گیا
اور پتھر ابھر کر خدا ہو گئے
جوش ملسیانی
جس نے اس دور کے ، انسان کئے ہیں پیدا
وہی میرا بھی خدا ہو ، مجھے منظور نہیں
ساحر لدھیانوی
ہائے اس کافر کے ، دستِ ناز سے
شیخ جی پیتے ہی ، انساں ہو گئے
اشوک ساہنی