انسان-انسانیت-بشر

خدا تو ملتا ہے ، انسان ہی نہیں ملتا

یہ چیز وہ ہے ، جو دیکھی کہیں کہیں میں نے

نامعلوم

لہو انسان کا ، پیتا ہے انساں

مگر بدنام ، ہر مےخوار کیوں ہو

رہبر ہساری

جن کو خدا نے دی ہے ، زمانے کی نعمتیں

دل ان کے ہوں غریب ، تو انسان کیا کرے

نندا

اک مشتِ خاک بن کر ، رخصت ہوا جہاں سے

مٹی کے مول یا رب ، انسان بک گیا

جوش ملیح آبادی

عظمتِ انسان اور ، انسانیت مرتی گئی

ہائے رے انسان ، بس ہندو مسلماں رہ گیا

حیرت فرخ آبادی

کس کو روتا ہے ، عمر بھر کوئی

آدمی جلد ، بھول جاتا ہے

فراق

اے آسماں! تیرے خدا کا نہیں ہے خوف

ڈرتے ہیں اے زمین ترے آدمی سے ہم

نامعلوم

میں انساں ہوں ، مجھے انسانیت سے پیار ہے یارو!

فقط دیر و حرم کی پاسبانی میں نہیں کرتا

اشوک ساہنی