تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
احمد فراز
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
حالی
دل خوش ہوا ہے مسجد ویراں کو دیکھ کر
میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے
غالب
غم بھی گزشتنی ہے خوشی بھی گزشتنی
کر غم کو اختیار کہ گزرے تو غم نہ ہو
ظفر
اس کو انساں مت سمجھ ، ہو سرکشی جس میں ظفر
خاکساری کے لئے ہے خاک سے انساں بنا
ظفر
دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے
میر
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یارب ان کردہ گناہوں کی سزا ہے؟؟
غالب
سر کو جھکا کے جینے سے بہتر ہے خودکشی
جینا ہے زندگی میں تو سر کو اٹھا کے جی
اشوک ساہنی