اشعار حقیقی

لگا کے آئے ہو تم پیڑ جب ببول کے

تمہیں بتاؤ کہاں سے گلاب نکلیں گے

ساغر اعظمی

دنیا میں وہی شخص ہے تعظیم کے قابل

جس شخص نے حالات کا رخ موڑ دیا

n/a

تخلیق کائنات کے دلچسپ جرم پر

ہنستا تو ہوگا آپ بھی یزداں کبھی کبھی

عدم

جو اہل ظرف ہیں ، اہل غرض سے جھک کر ملتے ہیں

صراحی سر نگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

n/a

تواضع کا طریقہ گر کوئی سیکھے صراحی سے

کہ جاری ہے فیض بھی اور جھکی رہتی ہے گرن بھی

n/a

اجالا تو ہوا کچھ دیر کو صحن گلستاں میں

بلا سے پھونک ڈالا بجلیوں نے آشیاں میرا

غالب

مری راہوں میں تم کانٹیں بچھا کر

خود اپنے حق میں کانٹے بورہے ہو

نواب لکھنوی

آہ مظلوموں کی مت لے اے اشوک

تری ہستی کو مٹا سکتی ہے یہ

اشوک ساہنی