اشعار حقیقی

کیسے کیسے چمن میں ، جلے آشیاں

اور بہار چمن مسکراتی رہی

شمیم

جس دن یہ ہاتھ پھیلے اہل کرم کے آگے

اے کاش اس سے ےپہلے ہم کو خدا اٹھا لے

عدم

مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر یار کی

آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ

مومن

خوب تھا پہلے سے ہم ہوتے جو اپنے بد خواہ

کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے

غالب

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے

ثاقب لکھنوی

اڑائے کچھ ورق لالے نے ، کچھ نرگس نےکچھ گل نے

چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستاں میری

اقبال

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

آتش

عید و دیوالی منانے سے تو اچھا ہوتا

ہم کسی مفلس و نادار کے ہمدم ہوتے

اشوک ساہنی