سوز دل بے آنسووں کے اک قیامت ہے قمر
اس سے پوچھو جس کا گھر جلتا ہو اور پانی نہ ہو
قمر
خائف خدا ہے جن سے وہ انساں ہیں آج کل
ڈرتے تھے جو خدا سے وہ انساں نہیں رہے
نریش کمار شاد
اس صدی میں ترے ہونٹوں پہ تبسم کی لکیر
ہنسنے والا ترا پتھر کا کلیجا ہوگا
انجم
بلندی سے نظر اپنی ہٹا کر
اسے دیکھو جو نیچے گر پڑا ہے
روشن لال روشن
گناہوں کی بستی میں آباد ہوکر
خدا پر بھروسہ کئے جا رہا ہوں
شیدا
جینے سے تنگ آگیا ہر آدمی مگر
مرنے کے واسطے کوئی تیار بھی نہیں
شیدا
خدا سے لوگ بھی خائف کبھی تھے
مگر لوگوں سے اب خائف خدا ہے
نریش کمار شاد
کب سیہ بختی میں ہوتا ہے کسی کا کوئی
عالم نزع میں پھر جاتی ہیں آنکھیں جیسے
اشوک ساہنی