خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کرسکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کرسکے
ساحر لدھیانوی
ہے آدمی خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
غالب
اگر ہزار نشیمن جلیں تو جلنے دیں
یہ فکر کر کہ گلستاں پہ آنچ آ نہ سکے
خمار
جو مرا حال سنا کیا ہے اس توجہ سے
وہ اجنبی بھی کسی غم میں مبتلا ہوگا
نوبہار صابر
بے پردگی پڑوس کی جس کو عزیز ہو
دیوار اپنے گھر کی وہ کیسے بنائے گا
مجاز سلطانی
سوال کرکے میں خود ہی بہت پشیماں ہوں
جواب دے کے مجھے اور شرمسار نہ کر
عدم
حوادث سے الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
مجھے دشواریوں میں اشک برسانا نہیں آتا
شکیل
رہتے تھے وہ جو دل میں، بچھڑے نہ تھے کبھی
فرمارہے ہیں دفن میں تاخیر کیوں ہوئی
اشوک ساہنی