گر زندگی کے سیکھو کھلتی ہوئی کلی سے
لب پر ہے مسکراہٹ دل خون ہورہا ہے
فراق
وقت تو دو ہی کٹھن گذرے ہیں میری عمر میں
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
داغ
ترک تعلقات کو اک لمحہ چاہئے
لیکن تمام عمر مجھے سوچنا پڑا
فانی نظامی
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے
بشیر بدر
مرنے والے تو خیر ہیں بے بس
جینے والے کمال کرتے ہیں
عدم
مہکنے لگے جس سے دنیا گلشن
خدا سے وہ امن و سکوں مانگتا ہوں
اشوک ساہنی