تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھوں کہ تم سے بات کریں
نامعلوم
پتھر کے جگر والو! غم میں وہ روانی ہے
خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے
نامعلوم
رنج کی جب ، گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم ، تم سے تو ہونے لگی
نامعلوم
بگڑا ہوا وہ حال ہے ، میرا کہ مصور
کھینچے مری تصویر اگر ، بن کے بگڑ جائے
نامعلوم
برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم نے اس شوخ کو مجبورِ حیا دیکھا ہے
نامعلوم
خدا تو خیر مسلماں تھا ، اس سے کیا شکوہ
مرے لئے مرے پرماتما سے ، کچھ نہ ہوا
نامعلوم
اس کثرتِ غم پہ بھی مجھے حسرتِ غم ہے
جو بھر کے چھلک جائے وہ پیمانہ نہیں ہوں
نامعلوم
خوشیوں کی جستجو ہے مجھے ، اس خیال سے
مل جائیں گر یہ مجھ کو زمانہ میں بانٹ دوں
نامعلوم