ملے جلے اشعار

پارسائی کی جواں مرگی نہ پوچھ

توبہ کی ہی تھی کہ بدلی چھا گئی

نامعلوم

آ کے پتھر تو مری صحن میں دو چار گرے

جتنے اس پیڑ پہ پھل تھے ، پسِ دیوار گرے

نامعلوم

ہر نئے موسم میں گھبرا کر یہی کہتے رہے

رت جو اس کے بعد آئے گی ، سہانی آئے گی

نامعلوم

مری مجبوریاں کیا پوچھتے ہو

کہ جینے کے لئے مجبور ہوں میں

نامعلوم

رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ

خواب تو دیکھ مگر خواب کی تعبیر نہ دیکھ

نامعلوم

کیوں سادگی میں طور اب کچھ بانکپن کے ہیں

کل تک تو بانکپن میں ادا سادگی کی تھی

نامعلوم

قہر ہو ، بلا ہو ، جو کچھ ہو

کاش کہ تم مرے لئے ہوتے

نامعلوم

عدو پر اس قدر احسان پر احسان کرتا جا

کہ دشمن دوستی کرنے پہ خود مجبور ہو جائے

نامعلوم