الٰہی! کیسی کیسی صورتیں تو نے بنائی ہیں
کہ ہر صورت کلیجہ سے لگا لینے کے قابل ہے
نامعلوم
مجھ کو دیکھا ، پھوٹ کے رویا
اب سمجھا سمجھانے والا
نامعلوم
لپٹ جاتے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے
الٰہی یہ گھٹا دو دن تو برسے
نامعلوم
غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا مجھے کریں
ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے
نامعلوم
مرے خلوص نے رکھا مجھے اندھیرے میں
ترا فریب مجھے روشنی میں لے آیا
نامعلوم
شبِ وصل کی کیا کہوں داستاں
زباں تھک گئی گفتگو رہ گئی
نامعلوم
نیا وہ ڈھونڈھتے ہیں روز ہی اک چاہنے والا
بدل دے یا الٰہی! روز ہی صورت نئی میری
نامعلوم
اتنا غمِ حیات نے مایوس کر دیا
اب تو تمہاری یاد بھی آتی نہیں مجھے
نامعلوم