جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر
ہنس کے کہنے لگے ، اور آپ کو آتا کیا ہے
نامعلوم
اندھیرا ہی بھلا ہے ، میں اس کی قدر کرتا ہوں
شبِ مہتاب میں اکثر ہوئی ہیں چوریاں میری
نامعلوم
جہاں شاخیں لچکتی ہیں ، جہاں بادل مچلتے ہیں
وہاں کچھ بادہ کش بھی لڑکھڑا جاتے ، تو کیا ہوتا
نامعلوم
تری راہ دیکھتی ہیں مری تشنہ کام آنکھیں
ترے جلوے میرے گھر کے در و بام چاہتے ہیں
نامعلوم
اس خدا کی تلاش ہے انجمؔ
جو خدا ہو کے آدمی سا لگے
نامعلوم
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا
نامعلوم
اف! کتنی دردمند تھی برسات کی گھٹا
برسی تو اپنے ساتھ ہی برسا گئی مجھے
نامعلوم
تو مجھ میں سما گیا ہے ایسے
تیری چپ بھی سنائی دے جیسے
نامعلوم