لاش جس کی بےکفن سڑتی رہی فٹ پاتھ پر
وہ ہمارے عہد کے مشہور فنکاروں میں تھا
نامعلوم
سوال کر کے میں خود ہی بہت پشیماں ہوں
جواب دے کے مجھے اور شرمسار نہ کر
نامعلوم
ہم سے پوچھ اے واعظ! لطف زندگانی کا
عارضی ہے دنیا میں ، دائمی ہے شیشہ میں
نامعلوم
سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
نامعلوم
ترے خلوص نے برباد کر دیا اے دوست!
فریب کھاتے تو اب تک سنبھل گئے ہوتے
نامعلوم
مےکدہ کی طرف چلا زاہد
صبح کا بھولا شام گھر آیا
نامعلوم
جنہیں زمیں پہ بھی رہنے کا کچھ شعور نہیں
انہیں کا ہے یہ تقاضا کہ آسماں لے لو
نامعلوم
شاید ترے کلام سے ملتا نہ یہ سکوں
مجھ کو تری نگاہوں نے خوشحال کر دیا
نامعلوم