ہوا تاروں کا خوں لیکن نیا اک آفتاب ابھرا
کسی کی رائیگاں کوئی بھی قربانی نہیں جاتی
نامعلوم
اپنے ایثار کو رسوا نہیں کرتے ہم لوگ
کھانا کم ہو تو چراغوں کو بجھا دیتے ہیں
نامعلوم
گھر جلانے سے جو اوروں کے مزہ ملتا ہے
ایک دن اپنا ذرا گھر بھی جلا کر دیکھو
نامعلوم
گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں
کوئی بدلی تری پازیب سے ٹکرائی ہے
نامعلوم
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
نامعلوم
رکھ کے جب ، زانوں پہ ہم ، سر بیٹھ گئے
یہ سمجھ لیجو کہ ہمسایوں کے گھر بیٹھ گئے
نامعلوم
ہم رونے پہ جو آ جائیں ، تو دریا ہی بہا دیں
شبنم کی طرح سے ہمیں ، رونا نہیں آتا
نامعلوم
وعدے پہ اپنے خواب میں ، آتے تو وہ ضرور
جب نیند ہی نہ آئے ، تو ان کا کیا قصور
نامعلوم