کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے ، باقی جو ہیں ، تیار بیٹھے ہیں
نامعلوم
پتھر تلاش کرنے میں صدیاں گزار دیں
ہیروں کا کاروبار بھی کتنا عجیب ہے
نامعلوم
دیکھنا چاہے اگر دنیا کا مستقبل تو سن!
کانچ کا برتن کسی پتھر کے اوپر پھینک دے
نامعلوم
ہمسائیگی میں آگ لگانے کے واسطے
شعلوں کا اہتمام ، عجب اتفاق ہے
نامعلوم
آنا نہ مری قبر پہ ہمراہِ رقیباں
مردہ کو مسلماں کے جلایا نہیں کرتے
نامعلوم
مزہ یہ ہے کہ جب ہم طاقتِ پرواز کھو بیٹھے
کہا صیاد نے پھر ، جا تجھے آزاد کرتے ہیں
نامعلوم
نہ جانے پاؤں میں میرے یہ کیسی گردش ہے
کہ منزلوں کو بھی گردِ رہِ سفر جانا
نامعلوم
تیری صورت سے حسیں اور بھی مل جائیں گے
جس میں سیرت بھی ہو تیری وہ کہاں سے لاؤں
نامعلوم