ضبط کیجئے تو دل ہے انگارا
اور اگر روئیے تو پانی ہے
نامعلوم
خیر اس کا ہمیں ملال ہے کیا
مفلسی دکھ ہزار دیتی ہے
نامعلوم
اک نیا دوزخ بنا کر جھونک دے ، تیار ہوں
جن سے تو ناراض ہے ، ان میں نہ شامل کر مجھے
نامعلوم
رات آتی ہے تو ہو جاتا ہے سایہ بھی جدا
آج اپنا بھی پرایا ہے کوئی بات نہیں
نامعلوم
ہر شخص چلا جاتا ہے اپنی ہی ہوا میں
تم رک گئے میرے لئے ، اتنا ہی بہت ہے
نامعلوم
اور بھی اس شرم نے مارا مجھے
آپ کا بندہ ہوں پھر ناشاد ہوں
نامعلوم
یہ حوادث یہ طوفاں یہ موجِ بلا
ایسے عالم میں بھی مسکرانا پڑا
نامعلوم
سنتا نہیں ہے کوئی یہاں مفلسی کی ، آج
ہر شخص میرے شہر میں مصروفِ زر لگے
نامعلوم