یہ تو بچہ ہے اسے جی بھر کے ہنسنے دیجئے
کل اسے بھی زندگی کا کینسر ہو جائے گا
نامعلوم
شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتوں کی آخر کیا بساط
جس طرف چاہے گی جنگل کی ہوا لے جائے گی
نامعلوم
اس صدی میں ترے ہونٹوں پہ تبسم کی لکیر
ہنسنے والے ترا پتھر کا کلیجہ ہوگا
نامعلوم
دل سی حقیر چیز ، تری بارگاہ میں
اے دوست! اپنے عجز سے ہوں شرمسار میں
نامعلوم
گفتگو ان سے روز ہوتی ہے
مدتوں سامنا نہیں ہوتا
نامعلوم
بس جائیے آکر مرے دامانِ نظر میں
یہ خیر کی بستی ہے یہاں شر نہ ملے گا
نامعلوم
ہر ایک کو دعویٰ ہے کہ ہم بھی ہیں کوئی چیز
اور ہم کو یہ ناز کہ ہم کچھ بھی نہیں ہیں
نامعلوم
عید و دیوالی منانے سے کہیں بہتر ہے
ہم کسی مفلس و نادار کے ہمدم ہوتے
نامعلوم