خدارا! دورِ حاضر کے بشر کی بات رہنے دے
شریکِ عیش بے شک ہے شریکِ غم نہیں ہوتا
نامعلوم
سب ترے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیا
سر پھرا دے انساں کا ، ایسا خبطِ مذہب کیا
نامعلوم
پیامِ امن لے کر آنے والے
ترے دامن پہ چھینٹے ہیں لہو کے
نامعلوم
آپ پہلو میں جو بیٹھیں تو سنبھل کر بیٹھیں
دلِ بیتاب کو عادت ہے مچل جانے کی
نامعلوم
ادا جینے کی قطرہ نے سکھا دی
فنا ہو کے سمندر ہو گیا ہے
نامعلوم
تمام دن تو رہا ساتھ ایک سورج کے
مگر یہ رات کے لمحے کہاں تمام کروں
نامعلوم
پھر اے سیمابؔ مایوسی کا اس کی کیا ٹھکانہ ہے
جسے مرنا بھی جینے کی طرح دشوار ہو جائے
نامعلوم
جب تصور میں بھی تم میرے ساتھ ہو
میری خلوت میں بھی آ جاؤ ، تو کچھ بات ہو
نامعلوم