قافلے یا مٹ گئے یا بڑھ گئے
اب غبارِ راہ بھی اٹھتا نہیں
نامعلوم
بدنصیبی کا میں قائل تو نہیں ہوں محشرؔ
میں نے برسات میں جلتے ہوئے گھر دیکھے ہیں
نامعلوم
ہو کے مایوس ، نہ آنگن سے اکھاڑو پودے
دھوپ برسی ہے ، تو بارش بھی یہیں پر ہوگی
نامعلوم
نیک نے تو نیک جانا بد نے بد جانا مجھے
ہر کسی نے اپنے پیمانہ سے پہچانا مجھے
نامعلوم
مفلسی میں مزاجِ شاہانہ
کس مرض کی دوا کرے کوئی
نامعلوم
ہائے وہ عالم کہ مرگِ آرزو کے باوجود
آدمی مجبور ہو جب مسکرانے کے لئے
نامعلوم
یا خدا! گلستاں کی کوکھ بانجھ ہو جائے
لوگ کچی کلیوں کو بےسبب مسلتے ہیں
نامعلوم
مجھ سے اس بات پہ ناراض ہے دنیا ساری
میں نے کیوں کر کسی مظلوم کی غمخواری کی
نامعلوم