یاں کس کو ہے میسر یہ کام کر گزرنا
اک بانکپن سے جینا اک بانکپن سے مرنا
نامعلوم
ہر فسانۂ الفت داستانِ تنہائی
رام با وطن تنہا ، قیس بے وطن تنہا
نامعلوم
عالمِ نو میں ، آدمِ نو نے
عرش کو ، فرش پر اتارا ہے
نامعلوم
شیشے کے گھر بھی اپنی ، جگہ خوشنما سہی
لیکن جو راحتیں مرے ، مٹی کے گھر میں ہیں
نامعلوم
میں لوٹنے کے ارادے سے ، جا رہا ہوں مگر
سفر سفر ہے مرا ، انتظار مت کرنا
نامعلوم
اتفاقاً سامنے وہ آئینہ کے آ گئے
بےخودی میں آئینے سے آئینہ ٹکرا گئے
نامعلوم