دل ہے قدموں پر کسی کے ، سر جھکا ہو یا نہ ہو
بندگی تو اپنی فطرت ہے ، خدا ہو یا نہ ہو
جگر
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ، ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اقبال
ایک بندہ بھی نہیں ، ہو جس کا مذہب بندگی
کوئی کافر ہو گیا ، کوئی مسلماں ہو گیا
نامعلوم
تری یاد ہے مری بندگی ، تری داد میری نماز ہے
مری بندگی تو ہے مختصر ، ترے غم کی عمر دراز ہے
نامعلوم
میں عبادت سمجھ کے ، پیتا تھا
توبہ کرکے ، گناہ کر بیٹھا
اشوک ساہنی