آنکھ کی بند اور ہوا موجود
کوئی مجھ سا بھی بت تراش نہیں
ناسخ
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
میر
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
تیری آنکھوں کی نیم خوابی سے
میر
دل تو شوقِ دید میں تڑپا کیا
آنکھ ہی کم بخت شرماتی رہی
نامعلوم
فریاد کر رہی ہے وہ ترسی ہوئی نگاہ
دیکھے ہوئے کسی کو زمانہ گزر گیا
نامعلوم
دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئے کئی دور چل گئے
حسرت موہانی
تیری تصویر بناتی تو تھی آنکھوں میں
بہہ کے اشکوں نے مٹا دی ہوگی
اشوک ساہنی
تجھ سے آنکھیں جو ہوئیں چار ، تجھے کیا معلوم
چل گیا دل پہ مرے وار ، تجھے کیا معلوم
اشوک ساہنی