آنکھ-چشم

روک لے اے آنکھ! جو آنسو کہ چشمِ تر میں ہیں

کچھ نہیں بگڑا ہے اب تک ، گھر کی دولت گھر میں ہے

احسن ماہراروی

شبِ وصل کیا مختصر ہو گئی

ذرا آنکھ جھپکی سحر ہو گئی

جگر

ممکن ہے کل ، زبان و قلم پر ہوں بندشیں

آنکھوں کو گفتگو کا سلیقہ سکھائیے

مشیر جھنجھانوی

مجھ کو شکوہ ہے اپنی آنکھوں سے

تم نہ آئے تو نیند کیوں آئی

نامعلوم

ذکر کرتے ہوئے ان آنکھوں کا

ہم چلے آئے میخانہ تک

عدم

تصویر سی کھنچ جاتی ہے بند کرتے ہی آنکھیں

مجھ سا بھی مصور کوئی دنیا میں ہوا کیا

اشوک ساہنی