تسلی-تسکین-سکون

کہہ رہا ہے موجِ دریا سے سمندر کا سکوت

جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

نامعلوم

ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکونِ دل

اے زندگی وگرنہ زمانہ میں کیا نہ تھا

آزاد

اتنی ہی نگاہوں کی مری پیاس بڑھی ہے

جتنی کہ تجھے دیکھ کے تسکین ہوئی ہے

اشرف رفیع

سکونِ دل جہانِ بیش و کم میں ڈھونڈھنے والے

یہاں ہر چیز ملتی ہے سکونِ دل نہیں ملتا

آزاد

اب مجھ کو ہے قرار تو سب کو قرار ہے

دل کیا ٹھہر گیا کہ زمانہ ٹھہر گیا

سیماب

بس یہ احساس کہ تو میرا ہے

مجھ کو ہر لمحہ سکوں دیتا ہے

اشوک ساہنی