آرزو تیری برقرار رہے
دل کا کیا ہے رہا ، رہا نہ رہا
حسرت
آغازِ محبت کا ، انجام بس اتنا ہے
جب دل میں تمنا تھی ، اب دل ہی تمنا ہے
جگر
وہ جام ہوں جو خونِ تمنا سے بھر گیا
یہ میرا ظرف ہے کہ چھلکتا نہیں ہوں میں
نامعلوم
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لئے
ہم ایک بار تری ، آرزو بھی کھو دیتے
مجروح
خیرات میں بہار کی دولت نہیں ملی
خوشبو کی آرزو میں بکھرنا پڑا ہمیں
تاجدار تاج
ہر ایک داغِ تمنا کو کلیجے سے لگاتا ہوں
کہ گھر آئی ہوئی دولت کو ٹھکرایا نہیں جاتا
مخمور دہلوی
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
ظفر
مجھے تیری تمنا ہر گھڑی بےچین رکھتی ہے
لحد میں بھی مجھے ، لگتا ہے تیری یاد آئے گی
اشوک ساہنی