آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار ، میں چلاؤں ہائے دل
رند
کمبخت وہی داغؔ نہ ہو ، دیکھیو کوئی
بےچین کئے دیتی ہے ، فریاد کسی کی
داغ دہلوی
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
مرزا غالب
نہ تڑپنے کی اجازت ہے ، نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں ، یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
رند
اب کوئی صدا ، میری صدا پر نہیں دیتا
آوازِ طرب اور تھی ، آوازِ فغاں اور
درد دہلوی
نہ ہو حیران میرے قہقہوں پر ، مہرباں میرے
فقط فریاد کا معیار ، اونچا کر لیا میں نے
حفیظ میرٹھی
عشق پابندِ وفا ہے ، نا کہ پابندِ رسوم
سر جھکانے کو نہیں کہتے ہیں ، سجدہ کرنا
آسی علدنی
آہ مظلوموں کی مت لے اے اشوکؔ
تیری ہستی کو مٹا سکتی ہے یہ
اشوک ساہنی