میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
مجروح سلطانپوری
نکل جا عقل سے آگے کہ یہ تو
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
نور
منزل کی طرف کیا پہنچیں گے ہر گام پہ دھوکا کھائیں گے
وہ قافلے والے جو اپنے سردار بدلتے رہتے ہیں
سریا رحمان
نہ ملے سراغِ منزل کہیں ، عمر بھر کسی کو
نظر آ گئی ہے منزل ، کہیں دو قدم ہی چل کے
شکیل
صرف اک قدم اٹھا تھا ، غلط راہِ شوق میں
منزل تمام عمر ، مجھے ڈھونڈھتی رہی
عدم
پہلے منزل کا تعین کیجئے
راستہ تو خود بہ خود مل جائے گا
اشوک ساہنی