کل وہ عالم تھا ، خدا کو بھی نہ کہتے تھے خدا
اب یہ عالم ہے کہ ہر بت کو خدا کہتے ہیں
رفعت
کس سے کریں گلہ ، کہ جو غرقاب ہو گئی
اس خوش نصیب ناؤ کے ، خود ناخدا تھے ہم
شمیم کرہانی
جہل کے دور میں ، انساں تھے خدا کے بندے
عقل کے دور میں بندوں کو خدا کہتے ہیں
رفعت سروش
ہر بشر کو جو خدا ، پاس بلا لیتا ہے
وہ خدا بھی تو کسی روز بشر تک پہنچے
ندیم قاسمی
احسان ناخدا کا اٹھانا تھا ناگوار
اس پار ہم خدا کے سہارے چلے گئے
اعظم
عقیدت اپنے محسن سے ، ہمیں ہے اس قدر اعظمؔ
اسی کو ہم خدا سمجھے ، اسی کو ناخدا سمجھے
اعظم
میری ہستی گواہ ہے کہ مجھے
تو کسی وقت بھولتا ہی نہیں
فانی
اپنوں نے اس قدر ہمیں مایوس کر دیا
شکوہ کسی سے اب نہیں میرے خدا مجھے
اشوک ساہنی