اس ناخدا کے ظلم و ستم ہائے کیا کروں
کشتی مری ڈبوئی ہے ساحل کے آس پاس
حسرت موہانی
صدیوں کا زہر پی کے جو ، سوئے وہ کیا اٹھے
ڈستی ہے زندگی کی خلش ، بار بار کیا
شمیم جےپوری
جنہیں ناخدا سے امید تھی ، انہیں ناخدا نے ڈبو دیا
جو الجھ کے رہ گئے موج سے ، وہ کبھی کے پار اتر گئے
شمیم جےپوری
جس دن یہ ہاتھ پھیلے ، اہلِ کرم کے آگے
اے کاش اس سے پہلے ہم کو خدا اٹھا لے
عدم
ٹکرا کے ناخدا نے ، مری کشتیٔ حیات
ساحل کو میرے واسطہ ، طوفاں بنا دیا
قمر
نعمتیں بےشمار ، پا کر بھی
شکرِ پروردگار ، ہو نہ سکا
مضطر
احسانِ ناخدا نہ ، گوارا ہوا ہمیں
غیرت میں آ کے خود ہی ، سفینے ڈبو دئے
سیف
بھروسہ ناخداؤں کا ، مری کشتی کو لے ڈوبا
اگر طوفاں سے لڑ جاتے ، تو بیڑا پار ہو جاتا
اشوک ساہنی