ستم کو وہ کرم ثابت کریں گے
ذہانت ان کو بخشی ہے خدا نے
نامعلوم
دنیا تو کیا ، خدا سے بھی گھبرا کے کہہ دیا
وہ مہرباں نہیں ، تو کوئی مہرباں نہ ہو
کیفی اعظمی
جس نے اس دور کے ، انسان کئے ہیں پیدا
وہی میرا بھی خدا ہے ، مجھے منظور نہیں
ساحر لدھیانوی
جوانی کو سزائے لذتِ احساس دے دینا
میں اس حد پر خدا کو ، آدمی محسوس کرتا ہوں
قتیل شفائی
زبانِ ہوش سے یہ کفر ، سرزد ہو نہیں سکتا
میں کیسے بن پئے لے لوں ، خدا کا نام ہیں ساقی
عدم
نہ تھا کچھ تو خدا تھا ، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
مرزا غالب
بخشیں خدا نے جس کو زمانے کی نعمتیں
وہ خوش نہ رہ سکے ، تو کوئی اس کا کیا کرے
اشوک ساہنی