خدا -ناخدا

خدا کے ڈر سے ہم تم کو ، خدا تو کہہ نہیں سکتے

مگر لطفِ خدا ، قہرِ خدا ، شانِ خدا ، تم ہو

نامعلوم

فانوس بن کے جس کی حفاظت خدا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

نامعلوم

دل خوش ہوا ہے مسجدِ ویراں کو دیکھ کر

میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے

عدم

ہر موج ناخدا بنی ، بےچارگی کے بعد

کشتی کے ڈوبتے ہی ، سہارے نکل پڑے

عدم

ہم نہیں وہ کہ کریں ، خون کا دعویٰ تجھ پر

بلکہ پوچھے گا خدا بھی ، تو مکر جائیں گے

ذوق

ہر موجِ تند جانتی ہے ناخدائیاں

طوفاں تو میرے ساتھ ہے گر ناخدا نہیں

پرواز

خدا اور ناخدا مل کر ڈبو دیں ، یہ تو ممکن ہے

فقط طوفاں تباہی کا تو ، باعث ہو نہیں سکتا

نامعلوم

بھروسہ ناخداؤں پر جو کرتے ہیں سمندر میں

بساوقات ان کے ہی سفینے ڈوب جاتے ہیں

اشوک ساہنی